This blog is no longer being updated. Last post was “Farewell”.

Categories

سورج کا سفر

Sunday, March 16, 2003

(۲۰۰۱ میں لکھی گئی اِس طویل نظم کا عنوان میرے والد نے تجویز کیا تھا۔ )

سمندر کی وسعتیں
لہروں کا یہ سماں
قطروں کی کہکشاں
اور اس میں ڈوبتے
سورج کی داستاں
اک راز ہے چُھپا
اِن گہرے پانیوں میں
سورج کی گفتگو کا
اِک روز سن لیا
افق کے طائروں نے
سورج جو کہہ رہا تھا
چند آبی مچھلیوں سے
وہ کہہ رہا تھا سُن لو
یہ مثنوی ہے میری
دلکش سی اِک کہانی
سُن لو مِری زبانی
میں جاگتا ہوں ہر صبح
چڑیوں کے چہچہوں سے
جب چومتے ہیں ماتھا
میرا، صبا کے جھونکے
میں دیکھتا ہوں ہر سُو
راحت کی حکمرانی
اور سحر کی جوانی
سرگوشیاں کرے جب
مجھ سے سحر کی مستی
تو گفتگو اُڑا لے
بادِ صبا کی شوخی
میں جھوم جھوم جاؤں
زیرِ لب مسکراؤں
کہ بے خودی صبا کی
مخمور مجھ کو کر دے
چاہت کے اِس نشے میں
میں سوچتا ہوں شاید
بلندیوں کو چھو کے
میں اُس کو پا ہی لوں گا
کیونکہ میں چاہتا ہوں
کہ صبح کی یہ رانی
بادِ صبا، ابد تک
ہو جائے صرف میری
صرف اور صرف میری
میں فلک کو دیکھتا ہوں
اور عزم باندھتا ہوں
کہ اِس کی یہ بلندی
میں سر کر ہی ڈالوں
پھر اِک قدم اٹھا کر
چڑیوں کو ساتھ لے کر
مشرق کو چھوڑتا ہوں
میری گداز کِرنیں
بکھریں زمیں پہ ہر سُو
پھیلائیں میرا جادو
پھر یکدم پھڑپھڑائے
بادِ صبا کا آنچل
مَس ہو مِرے بدن سے
مہکائے میرے تن کو
سرشار اِس خوشی سے
میں مزید آگے جاؤں
چڑیوں کو چھوڑ جاؤں
اور تھام لوں فلک کو
آکاش کی بلندی
مجھ سے نگاہ ملائے
اور طنزاً مسکرائے
پر میں نہ ڈگمگاؤں
اور اس سے پوچھ ڈالوں
کس بات کا گھمنڈ ہے
کس چیز کا تکبر؟
گر اس کا سر بلند ہے
تو میں بھی اب بلند ہوں!
سلطان آسماں کا
ہنس کر کہے یہ مجھ سے
“مانا کہ تم جری ہو
اور دُھن کے بھی ہو پکّے
ہو نور کا خزانہ
پر یہ مجھے بتاؤ
تم جس کو چاہتے ہو
جس کے ہو متمنی
وہ دلربا کہاں ہے؟
بادِ صبا کہاں ہے؟”
میں چونک جاؤں یکدم
دوڑاؤں اپنی نظریں
میری تمام مسافت
دھرتی کا صاف چہرہ
چڑیوں کے قافلے اور
مشرق کا وہ کنارا
کچھ بھی نہیں ہے اوجھل
بس صرف وہ نہیں ہے
میری صبا نہیں ہے

چُپ سادھ لیں مِرے لب
میں سب کو بھول جاؤں
پھر طیش کی لہر اِک
ابھرے مِرے بدن میں
بھڑکائے میرے تن کو
میری سنہری کرنیں
فطرت پلٹ کر اپنی
بن جائیں سرخ شعلے
تپتے ہوئے شرارے
احساس اِس امر کا
کہ کھو چکا ہوں اُس کو
میری جلن بڑھائے
اور قہر بن کے برسے
دھرتی کے ہر نفس پر
ہجراں کی اِس تڑپ میں
جی میں مِرے یہ آئے
کہ سب کو راکھ کر دوں
سب کو جلا ہی ڈالوں
لیکن یہ سوچتا ہوں
کہ اِس سے کیا ملے گا؟
مجھ کو مِری محبت
واپس تو نہ ملے گی
میں اپنے تن کو اُس کی
ساحر سگندھِ خوش سے
مہکا تو نہ سکوں گا
یہ سوچتے ہی میرے
شعلوں کی تابکاری
سانسوں کو توڑ جائے
وہ طیش کی لہر جو
ابھری تھی میرے تن میں
معدوم ہوتی جائے

اِک گہرا سانس لے کر
مغرب کو دیکھتا ہوں
اور اپنا سر جھکا کر
بڑھتا ہوں اُس کی جانب
وہ آسماں کی چوٹی
جس کو فتح کیا تھا
مجھ کو روانہ ہوتے
دیکھے اور مسکرائے
میرے بھی ہونٹ بکھریں
اک تلخ مسکراہٹ
کو خود پہ لا سجائیں
میں اپنے دل کو پرکھوں
اور آپ ہی آپ سوچوں
شاید مِری خطا تھی
مجھ میں ہی کچھ کمی تھی
کہ جس کو چاہتا تھا
وہ دور جا چکی تھی
میں تو اُسی کا ہوں پر
شاید وہ میری نہ تھی!

مغرب کے پاس جا کر
میں خود کو دیکھتا ہوں
اداسیوں کی چادر
پھیلا کے، اپنے کندھے
اُس میں سمیٹتا ہوں
پھر پیچھے دیکھتا ہوں
چڑیوں کے قافلے جو
بچھڑے تھے صبح کی ساعت
مجھ کو پکارتے ہیں
میں اپنا سر جھٹک کر
اُن سے نظر ہٹا کر
خود کو سنبھالتا ہوں
دھیرے سے سانس لے کر
مغرب کے بازوؤں کی
آغوش دیکھتا ہوں
بڑھتا ہوں اُس کی جانب
کہ شام کی ہوائیں
غلغلہ مچاتی
خوشیوں کے گیت گاتی
پاس آ کے مسکرائیں
میرا طواف کر کے
کچھ منہ ہی منہ میں کہہ کے
اِک قہقہہ لگائیں
رنجور ذہن میرا
اُن کی خوشی پہ الجھے
میری اداس آنکھیں
حیرت سے ان کو دیکھیں
وہ شام کی ہوائیں
اک رقص سا دکھا کر
میرے قریب آئیں
مدھم سُروں میں کوئی
نغمہ سا گنگنائیں
دھیمی سی لَے میں بولیں
“مشرق کے بادشاہ پر
اداسیوں کا سایہ
کچھ جچ کے نہ دکھائے
چھوڑو فسردہ باتیں
جس کی تڑپ ہے تم کو
ہم اُس کے نامہ بر ہیں!”
میرا سکوت ٹوٹے
میں پھر سے جاگ جاؤں
بے چین ہو کے پوچھوں
“میری صبا کہاں ہے؟
میری صبا کہاں ہے؟”
وہ شوخ شنگ ہوائیں
مسکان اک سجا کر
مجھ کو بتاتی جائیں
“اے روشنی کے تارے!
بادِ صبا بھی تم کو
اتنا ہی چاہتی ہے
کرتی ہے یاد تم کو
اُس کے دھیان میں بھی
تم ہی ہو، صرف تم ہو
تم سوچتے ہو شاید
تمہاری وہ نہیں ہے
پر روشنی کے تارے!
تم سوچتے غلط ہو
کہ صبح کی وہ رانی
صرف اور صرف تم کو
تم ہی کو چاہتی ہے
آکاش کی بلندی
اور آسماں کی چوٹی
کیا واسطہ ہے اُس کو
اِن ساری منزلوں سے
سر نہ کرو گے، تب بھی
بادِ صبا کے من پہ
تم حکمراں رہو گے
تو روشنی کے تارے!
اب جا کے نیند لو تم
کہ صبح جب اٹھو گے
مشرق کے بستروں سے
وہ دلربا ملے گی
بادِ صبا ملے گی
اب آنکھیں بند کرو کہ
تم کو تمہاری چاہت
کل صبح پھر ملے گی!”

میں پھر سے جی اٹھوں اور
مسرتوں کی سرخی
چھلکے مِرے بدن سے
وہ شال اداسیوں کی
میں اب اتار پھینکوں
سرشار ہو کے جو میں
ہنستی ہوئی ہواؤں
کا ساتھ دیتا جاؤں
تو شام کے نظارے
شرما کے دہک جائیں
میری ہنسی جو گونجے
چڑیوں کے قافلوں میں
تو وہ حسین ساقی
ساغر اُلٹ کے اپنے
اِس مغربی افق پر
مَے کو گراتے جائیں
سُرخی جماتے جائیں
مغرب کے بادلوں کی
وہ ارغوانی لہریں
لوری مجھے سنائیں
میں نیند کے نشے میں
مدہوش ہوتا جاؤں
مغرب کے بازوؤں کو
تکیہ بنا کے اپنا
آرام سے سو جاؤں

یہ ہے مِری کہانی
اے آبی جاندارو!
میں کل صبح اٹھوں گا
بادِ صبا سے مل کے
پھر آسماں چڑھوں گا
اُس کو وہاں نہ پا کے
وحشت سے چُور ہوں گا
جب ڈوبنے لگوں گا
سوچوں گا اگلی صبح کا
اور بے نیاز ہو کے
مغرب کی وادیوں میں
جا کر دراز ہوں گا

Tags

sunrise, sunset, نظم

(Possibly) similar posts

4 comments

Ayesha

Feb 26, 2008 at 10:05 am

Its beautiful.
If its your’s, you’re gifted MashaALLAH and I cant help giving a small piece of advice :)
“Preserve yourself…”

Saadat

Feb 26, 2008 at 5:26 pm

Ayesha: Thank you. The poem is indeed mine; I wrote it in three consecutive nights while laying in my bed when I should have been studying. As for your advice, thanks again. :)

Specs

Oct 26, 2009 at 3:06 pm

:-O

Well, I came here because I do have time to waste today but man, this is beautiful poetry indeed! How come you don’t do stuff like this anymore?

Saadat

Oct 26, 2009 at 9:43 pm

Thank you, Specs. :) I’m glad you liked it. I wish I could write more poetry, but it’s not coming to me these days as it used to.

Comments are closed

Categories

Academic

Blah

Blogging

Books

Current Affairs

Eid

Fiction

Islamabad

Meme

Memories

Movies

Pakistan

People

Poetry

Self-centered

Technology

Thousand Words

Urdu