This blog is no longer being updated. Last post was “Farewell”.
کافی کا ایک اور گھونٹ لینے کے بعد اُس نے کپ میز پر رکھا اور اُس میں سے اٹھتی بھاپ کو دیکھنے لگا۔
کیفے کے باہر سورج آہستہ آہستہ مغرب میں اتر رہا تھا۔ چند گھنٹوں پہلے ہونے والی بارش نے جہاں موسم کی خوبصورتی میں اضافہ کیا تھا، وہاں سرد ہواؤں کی شدت کو بھی دُگنا کر دیا تھا۔ موسم کی یہی خنک دلکشی اُسے اپنے اپارٹمنٹ سے باہر کھینچ لائی تھی۔ ایک ہلکا سا سویٹر اور جِینز اپنے بدن پر چڑھائے وہ کچھ دیر تک فُٹ پاتھوں پر آوارہ گردی کرتا رہا تھا اور پھر اُس کیفے میں آ گیا تھا۔
”سر!“ کیفے کا مالک اُسے دیکھ کر مسکرایا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اُس کا مستقل گاہک بس آنے ہی والا ہے۔ موسم ہی کچھ ایسا تھا۔
اپنی مخصوص میز پر بیٹھنے کے بعد اُس نے اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تھی۔ کیفے کی گلاس کی دیواریں باہر موجود زندگی کو اندر بیٹھے ناظرین کے لیے گویا پینٹ کر رہی تھیں: وہی لمبی سی دو رویہ سڑک۔ سڑک کے گرد موجود وہی فُٹ پاتھ۔ فُٹ پاتھوں کے کنارے لگے وہی گھنے درخت۔ اُن درختوں سے گرتے، سردیوں کا استقبال کرتے وہی پتّے۔ اور اُن پتّوں پر چلتے ہوئے وہی لوگ۔
اُس نے کافی کے کپ سے اُٹھتی ہوئی بھاپ کو دیکھا۔ ایک خم دار، اَن دیکھے راستے پر چلتی ہوئی وہ بھاپ اسے کچھ کہتی محسوس ہو رہی تھی۔
”اگلا افسانہ کب لکھ رہے ہیں سر؟“ کیفے کا مالک پوچھ رہا تھا۔ اُس نے مسکرا کر کافی کا ایک اور گھونٹ لیا اور نفی میں سر ہلا دیا۔ کیفے کا مالک ہنسا اور ایک دوسری میز کی جانب بڑھ گیا۔
کچھ دیر پہلے جب وہ باہر فُٹ پاتھ پر بکھرے گیلے پتّوں پر چل رہا تھا تو یہی سوال اُس کے اپنے ذہن میں بھی ابھرا تھا۔ ”مجھے اِن پتّوں پر کچھ لکھنا چاہیے۔“ اُس نے سوچا تھا۔ ”لیکن کیا فائدہ؟ لا تعداد ادیب، شاعر، اور مصوّر اِن پتّوں پر نجانے کِن کِن زاویوں سے طبع آزمائی کر چکے ہیں۔ شاید یہ پتّے بھی اب تک افسانوں، نظموں، اور تصویروں کا موضوع بن بن کر تنگ آ چکے ہوں۔“
وہ اپنی اِس سوچ پر خود ہی ہنسا تھا۔
”شاید مجھے اِسی موضوع پر لکھنا چاہیے کہ یہ پتّے کِس کِس طرح استعمال ہوتے رہے ہیں۔“ اپنے ہاتھوں کو جِینز کی جیبوں میں اُڑستے ہوئے اُس نے ایک لمحے کو رک کر فُٹ پاتھ پر بکھرے پتّوں کو دیکھا تھا۔ یوں جیسے اُن کی تائید چاہ رہا ہو۔
سورج مزید جُھک گیا تھا۔ وہ لمبی سی دو رویہ سڑک اب نارنجی سی روشنی میں نہا گئی تھی۔
کافی کا ایک اور گھونٹ لے کر اُس نے کیفے میں موجود لوگوں کو دیکھا۔ ایک کونے میں دو ٹِین ایجرز بیٹھے آئس کریم سے لطف اندوز ہو رہے تھے۔ کبھی کبھار زور سے قہقہہ لگا کر وہ ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر ہنس پڑتے۔ کیفے کا مالک بھی گاہے گاہے اُن پر نظر ڈال کر مسکرا رہا تھا۔
”جوانی!“ اُس کے ذہن میں فوراً عنوان آیا۔
ایک دوسری میز پر دو خواتین بیٹھی تھیں، ماں اور بیٹی۔ بیٹی نہایت پُر جوش انداز میں ماں کو کسی چیز کے بارے میں بتا رہی تھی اور ماں اپنے چہرے پر ایک شفیق سی مسکراہٹ لیے اُسے سُن رہی تھی۔ جب کبھی اُن ٹِین ایجر لڑکوں کا قہقہہ بیٹی کی روانی میں خلل ڈالتا تو وہ ماتھے پر بَل ڈال کر اُنہیں گھورتی۔ ماں کی مسکراہٹ گہری ہو جاتی۔
”بے تابی!“ اُس کے ذہن میں ایک اور عنوان گونجا۔
بائیں جانب درمیانی عمر کے دو میاں بیوی بیٹھے تھے۔ ایک ہی پلیٹ سے رُوسی سلاد کھاتے ہوئے وہ مستقل مسکرا رہے تھے۔ بیوی کبھی کبھار دھیرے سے ہنس بھی پڑتی، اور شوہر اُس لمحے نظر بھر کر بیوی کے ہنستے ہوئے چہرے کو دیکھتا۔ بیوی جواباً استفہامیہ انداز میں شوہر کی طرف دیکھتی، جس پر شوہر بھی ہنس کر نفی میں سر ہلاتا۔ پھر وہ دونوں باہر فُٹ پاتھ پر چلتے لوگوں کو دیکھنے لگتے۔
”ساتھ!“ ایک اور عنوان۔
کافی کی بھاپ اب اُس کے چہرے کے سامنے مختلف شکلیں اختیار کر رہی تھی۔ اُس نے اُن شکلوں کو شناخت کرنے کی کوشش کی۔ اُسے کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ دھیرے سے مسکراتے ہوئے اُس نے اگلا گھونٹ لیا۔ بھاپ رقص کرتے ہوئے اُس کی آنکھوں کے سامنے آ گئی۔ ہر شَے دُھندلا گئی تھی۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
بند آنکھوں سے کیفے کا منظر زیادہ دلفریب تھا۔ گلاس کی دیواروں کے اُس پار سورج کا غروب مزید مسحور کُن ہو گیا تھا۔ فُٹ پاتھ پر بکھرے پتّے آپس میں سر گوشیاں کرتے اُس کی طرف اشارے کر رہے تھے۔ کیفے کا مالک اب کاؤنٹر کے پیچھے کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا۔ وہ دونوں ٹِین ایجرز بھی خاموش ہو کر اُس کی طرف گھوم گئے تھے۔ بیٹی اپنی ماں کو اُسی کی طرف متوجہ کر رہی تھی۔ میاں بیوی نے باہر چہل قدمی کرتے لوگوں کی بجائے اُس کا جائزہ لینا شروع کر دیا تھا۔ وہ اُن سب کی توجہ کو محسوس کرتے ہوئے گویا داد وصول کرنے لگا۔ وہ اِس داد کا مستحق جو تھا۔
پھر اُس نے اُسے دیکھا۔ کیفے کے دوسرے کونے میں بیٹھی، اپنے سامنے پڑی میز پر جھکی، تیزی سے کچھ لکھتی ہوئی، وہ آس پاس سے بالکل بے خبر تھی۔ اُس کا قلم بڑی روانی کے ساتھ سطر پر سطر لکھے جا رہا تھا اور اُس کے ہونٹوں پر موجود مسکراہٹ گویا اعلان کر رہی تھی کہ اُسے اپنی تحریر کے علاوہ اور کسی کی پروا نہیں ہے۔ وہ الجھ گیا۔ ”آخر یہ مجھے داد کیوں نہیں دے رہی؟“ وہ اُسی بے خبری کے ساتھ لکھتی رہی، اور وہ اُسی الجھن کے ساتھ اُسے دیکھتا رہا۔
کافی اب ٹھنڈی ہونا شروع ہو گئی تھی۔ بھاپ کی اشکال بھی معدوم ہو گئی تھیں جب اُس نے سر اٹھا کر اُس کی طرف دیکھا۔ وہ چونکا اور وہ مسکرائی۔ ”تم نے میرے لیے کوئی عنوان تجویز نہیں کیا۔“
اُس نے اپنی آنکھیں کھول دیں۔ ”فریب!“
کیفے کے دوسرے کونے پر موجود میز خالی تھی۔ وہ اٹھ کر باہر چلا آیا۔
37 comments
aapi
Nov 22, 2006 at 9:19 am
saadat miaan,,aap chaa gaye hain!!
Shoiab Safdar
Nov 22, 2006 at 10:49 am
Kia bat hai!!! great!!!!
محمد شاکر عزیز
Nov 23, 2006 at 9:41 am
اچھا افسانہ ہے۔
پسند آیا۔
Hard Stone
Nov 23, 2006 at 10:48 am
To strat with the end to end with the start, its a pretty hard thing to do. I cannot write what i exactly felt about this but i guess my reaction showed you how i felt. Its GREAT ONE from you. Good to read something after a long time.
Saadat
Nov 23, 2006 at 1:35 pm
Thanks, everyone! I am glad you all liked it!
knicq
Nov 26, 2006 at 1:51 am
Undoubtedly, one of your best…and every word worth the months of waiting…Subhan Allah. Beautifully written, and what vivid imagery…I loved the way you captured the expressions on the cafe owner’s and the girl’s mother’s faces….but most of all I loved the ending!
You MUST get this published!
You really MUST!
whats in a name?
Nov 26, 2006 at 1:10 pm
Assalam-o-Alaikum!
.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.-.
Wassalam.
Saadat
Nov 27, 2006 at 12:40 pm
Bhaijan: Can’t thank you enough for all the encouragement and the appreciative words
WiAN: Wa-alaikum-us-Salam! (There’s nothing else I can say!)
unaiza nasim
Nov 27, 2006 at 6:15 pm
Hey, been here after a long time and good to see a nice post
untamed-desires
Nov 27, 2006 at 11:17 pm
oh wow!!! to read something brilliantly written and in urdu script tou double maza hei! i wish i cud do some of my thoughtstops in urdu but somehow end up dispelling the thought….but this fine piece of urs might make me try for once. u can get it published for sure! n thanx for adding me to ur blogroll
Saadat
Nov 29, 2006 at 6:54 am
Unaiza: Thanks for liking the post. And don’t worry, you didn’t miss anything (thanks to my late updates!).
Untamed Desires: Thank you for liking it! And yes, do try any of your thoughtstops in Urdu (though they are already brilliant in English anyway ). And you’re welcome about the blogroll; I just wish I could come up with a plug as brilliant as you have for my blog!
B
Dec 2, 2006 at 2:17 am
Hey, thanks for visiting my blog. It’s rare to see someone else who appreciates comic books. Period. =P
What do I do if I’m having problems reading this because it takes me 10 mins to get through one sentence of written Urdu? :P:P
chij bachee
Dec 6, 2006 at 9:00 pm
hi bak sadaat! yes this is the same chij bachee who used to come to your blog. i just went private for a while, now my blog is btw private and public, i still havent decided. Thanku for liking the blog, its still new, i jst shifted from blogger. it’ll be a while till i get it all set up. U are welcome to visit more often!
n very nice idea abt the urdu blog. i sometimes feel like writing urdu too. thats wen im full to the brim with angraizee :S btw, we have to write an afsaana for our urdu class, can i jst copy urs and plagerize? hahahh
Im hoping my urdu sir is not a frequent visitor on ur blog!
chij bachee
Dec 6, 2006 at 9:08 pm
btw, BRILLIANT afsana!!! very very nice i must say
Saadat
Dec 8, 2006 at 8:47 am
B: You know, when I was writing that Trouble With Urdu page, I had thought of this (your) case, but then decided not to say anything about it. Now that you are here and pointed it out, I guess I ought to include a few lines about. “Make sure that you know Urdu and have sufficient practise reading Urdu text” Thanks for dropping by
Chij: Welcome back to my blog! And yep, WordPress rocks. Thank you for liking the afsana; much appreciated And don’t worry about writing an afsana yourself, just sit back and translate the one you wrote on your blog! (By the way, I too hope that your Urdu Sir doesn’t know of this place. I have a feeling that he’ll flunk me if he reads this! )
tarique kamal
Dec 10, 2006 at 3:30 pm
واقعی بھت اچھا لکھا ھے آپنے
پڑھ کر مزا آگیا!
Saadat
Dec 10, 2006 at 7:08 pm
شکریہ، طارق!
untamed-desires
Dec 12, 2006 at 10:54 pm
AOA, hows u? thanks for confirming its Rumi’s poetry. i shud have googled it myself but woops neways, the poetry and the sinking boat ka refernce and all, got me reciting the shair so i put it down as the title…ofcourse poora shair nai likha but its a zabardast nazm/ghazal(?) in its own self. quite honestly though, i donot know who wrote it..hmmm need to find that out or u can help n theres sth wrong with blogger n it aint allowing comments so cant reply there! hope u dont mind.
Saadat
Dec 13, 2006 at 7:07 am
Untamed Desires: I am fine, thanks! And yep, that’s a ghazal, though contains only 3 ash’aar in it. And it’s by Ghalib. Will send you an email containing that ghazal soon And no, I didn’t mind; I myself am having trouble posting comments on blogs hosted by Blogger
knicq
Dec 20, 2006 at 1:29 pm
Chotey bhai…anytime you are done with your next master-peice, feel free to update it here!
Suga
Dec 24, 2006 at 3:27 am
How r u?!!!!
Saadat
Dec 26, 2006 at 7:35 am
Bhaijan: I don’t know if it’s going to be a master-piece, but I do have an update planned. Honestly. After Eid, inshaAllah
Suga: Hey, I am great! Just busy in loads of things, one of which is final exams *frown* Thanks for dropping by!
شارق مستقیم
Dec 26, 2006 at 1:52 pm
سعادت تم نے کمال لکھا ہے، تحریر میں بالکل جھول نہیں۔ پڑھ کر بہت مزہ آیا۔ زبردست!
Saadat
Dec 28, 2006 at 8:20 am
شارق: افسانے کی پسندیدگی اور حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ!
knicq
Dec 28, 2006 at 11:13 am
Aziz-e-mun,
Aik satar likhne ke liye log in kiya tha?
Looking forward to your eid post.
Love,
knicq
Dec 31, 2006 at 4:57 pm
Eid Mubarak to you and yours Chotey Bhai.
Saadat
Dec 31, 2006 at 8:49 pm
Eid Mubarak to you too, Bhaijan!
Gumnaam
Jan 27, 2007 at 7:48 pm
this HER was supposed to be his tehreer, ryte?
or else one there was a crow;P
i hope u understand k writer kisee kee mom sis ko naee chhair raha :p
rashid
Oct 20, 2007 at 2:57 pm
islam
Sana
Jan 14, 2009 at 7:01 pm
Amazing as always speechless
Sana
Jan 14, 2009 at 7:02 pm
y do my comments await moderation :@ errr!!!
Spook
May 20, 2013 at 10:15 pm
یہ بیچارہ بلاگ اس قدر ویران کیوں ہے؟ نثر لکھیے، نظم لکھیے، اردو لکھیے، انگریزی لکھیے مگر کچھ تو لکھیے۔
یہ افسانہ میں نے کافی پہلے پڑھا تھا، بلا کی روانی ہے اس میں۔ ‘بیتابی’ اور ‘ساتھ’ بہت ہی اچھے عنوان دیے ہیں آپ نے۔
Saadat
May 21, 2013 at 7:49 am
Spook,
یہ بیچارہ بلاگ اس لیے ویران ہے کیونکہ اس کے بیچارے مالک کے ہاں آجکل لکھنے کی انسپریشن کا سخت فقدان ہے۔
افسانے کی پسندیدگی کا شکریہ۔
Spook
May 29, 2013 at 2:32 pm
اب اس پر اظہارِ تاسف کے سوا کیا کیا جا سکتا ہے! ذرا ڈھونڈنے کی کوشش کر کے دیکھیے؟
میں نے اپنی پوسٹ میں اردو فانٹ کی تصویر آخرکار لگا دی ہے، امید ہے کہ آپ اتنی بداخلاقی کا (زیادہ) برا نہیں مانیں گے۔
Saadat
May 30, 2013 at 8:21 am
در اصل وقت کے ساتھ ساتھ میری ترجیحات بھی کچھ بدل گئی ہیں۔ ایک مکمل اردو بلاگ کا مبہم سا خاکہ ذہن میں ہے تو سہی، لیکن دیکھیے کہ کب اس خاکے کو عملی شکل دینے کا وقت ملتا ہے۔
فونٹ کی تصویر کے لیے شکریہ۔ بد اخلاقی کیسی؟
Spook
May 30, 2013 at 11:29 pm
بداخلاقی یعنی دیر سے لگانے کی، لیکن اگر آپ نے دھیان نہیں دیا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے
ویسے مجھے ہائبرڈ بلاگ کا آئیڈیا بھی ٹھیک لگتا ہے، لیکن اگر آپ خالصتا اردو بلاگ بنانا چاہتے ہیں تو ضرور بنائیے۔
Saadat
Jun 3, 2013 at 8:33 am
کوئی بات نہیں، دیر سویر تو ہو ہی جاتی ہے۔